تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

پکار اے جرسِ کاروانِ صبØ+ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں Ú©Ùˆ نہ چھیڑ اے ہوائے صØ+رائی

رہِ Ø+یات میں Ú©Ú†Ú¾ مرØ+Ù„Û’ تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانØ+ہ بھی Ù…Ø+بت میں بارہا گزرا
کہ اس Ù†Û’ Ø+ال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی